Quantcast
Channel: PKKH.tv » Exclusive
Viewing all articles
Browse latest Browse all 143

!عیساوی نے اسرائیل کو شکست دی

$
0
0

PKKH Exclusive

Transalation By Ghareebah

278

دن غذا اور پانی کے بغیر گزارنا، کیا اتنا غیر اہم اور ناقابلِ توجہ واقعہ تھا، کہ ہمارے ذرائعِ ابلاغ اور دانشوران اس کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیں؟ ہمارے ذراابلاغ ہمیں ولایت ہائے متحد امریکہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لئے ہونے والے لندن ماراتھن کی تو تازہ ترین خبریں دیتے ہیں، ہمیں ملکہء انگلستان کی سالگرہ کی تقریبات کی بھی تفصیلات ملتی رہی ہیں، ہم سب جانتے ہیں کہ کیمبرج کی ڈچز کتنے ماہ کی حاملہ ہیں؛ لیکن یہ شخص جس کو اسرائیلی ڈاکٹروں نے بارہا “موت کے منہ” میں قرار دیا ہے، ایک مرتبہ ذکر کا بھی مستحق نہیں؟

کیا انسانیت کے دعویدار عالمی معاشرہ کے لئے یہ اس قدر عمومی اور روز مرہ کا معاملہ تھا کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے؟ ہم اس حد درجہ نا امیدی کو بھی تو نظر انداز ہی کرتے ہیں جس میں ہم نے انسانیت کے ایک طبقہ کو دھکیل دیا ہے! ہم روزانہ تین مرتبہ ڈٹ کر کھانا کھانے والے لوگ ایک ایسےانسان سے لاتعلق ہو گئے جس نے ایک یا دو دن نہیں، بلکہ 278 دنوں تک کچھ بھی نہیں کھایا! اگر ایک مرتے ہوئے شخص کا المیہ، اور اس کا پختہ عزم، قوتِ فیصلہ اور اس کے لاغر جسم کو مضبوط رکھنے والی طاقت ہمیں نہیں ہلا سکتی، تو پھر ہمارے دل ودماغ اور احساس کو کون سی چیز زندہ کر سکے گی؟

بین الاقوامی ذرائعِ ابلاغ اور حقوقِ انسانی کی نگراں تنظیموں نے اس واقعہ پر جو کم سے کم تر توجہ دی ہے، وہ ناقابلِ یقین ہے۔ نہ تو ہیومن رائٹس واچ نے، نہ ہی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے، اور نہ ہی اقوامِ متحدہ کی تابع کسی بھی تنظیم برائے فروغ حقوقِ انسانی نے اس معاملہ کو اس تناظر میں دیکھا جو ایسے کسی المیہ کے لئے مخصوص ہونا چاہئے تھا۔ بی بی سی جیسے بعض عالمی ذرائعِ ابلاغ نے تو اس معاملہ کی خبر دینے کی زحمت بھی تب ہی کی جب وہ حل ہو چکا تھا۔

یہ المیہ ضرور تھا، ایک جوان انسان کا المیہ جو کھانے کا ایک لقمہ یا پانی کا ایک گھونٹ پینے سے بھی انکار کرتا رہا! لیکن یہ مکمل تصویر نہیں۔ اس المیہ سے بھی بڑا سانحہ تو وہ ہے جو اس کا باعث بنا۔ ایک جوان شخص کو، جو عمر کی بہاروں میں ہو، جس کے والدین اور بھائی بہن اس کی طویل اور کامیاب زندگی کی دعائیں مانگتے ہوں، کون سی چیز ایسا کرنے پر اکسا سکتی ہے؟

فلسطینی عوام اس بھوک ہڑتال کے بعد سے ہی مہینوں تک لگاتار احتجاجات کرتی رہی ہے، لاکھوں ہم وطن دھرنوں اور مظاہروں کا انعقاد کرتے اور اس کی خاطر پولیس کے مظالم سہتے رہے ہیں۔ انہوں نے اس شخص کو اپنی مزاحمت کی علامت بنا لیا ہے، وہ ان کی آزمائشوں، مایوسیوں اور امیدوں کا مظہر ہے۔ کیا یہ کئی دہائیوں تک ایک ساتھ درد سہنے کی یہی طاقت نہیں ہے، جس نے اس شخص کو موت میں منہ میں جانے تک بھی کھانے اور پینے سے صاف انکار پر ثابت قدم رکھا؟ وہ کون سی طاقت تھی جس کے بل پر اس نے بنیادی انسانی ضرورتوں سے انکار کیا یہاں تک کہ وہ وہیل چئیر پر آ گیا، نہ صرف دیکھنے سننے اور بولنے بلکہ سیدھا کھڑا ہونے اور عام مؤثرات کو محسوس کرنے کی بھی صلاحیت کھو بیٹھا؟ کیا یہ موت سے بھی بد تر کسی سانحہ کے علاوہ کچھ اور ہو سکتا ہے؟ ایک ایسا سانحہ جو اس کے لئے رشتہ داروں اور دوستوں سے بھی بڑھ کر تھا، ایسا المیہ جس کی لپیٹ میں  تمام انسانیت تھی، بلکہ نہیں، اس کی لپیٹ میں صرف وہ لوگ ہیں جو کم از کم اس کو محسوس کرنے کے تو روادار ہوں!

کیا ایسا سنگین المیہ بھی لا تعلق سی عالمی خاموشی کی گنجائش رہنے دیتا ہے؟ وہ مقصد جو ایک شخص سے 8 مہینوں تک کھانے پینے سے انکار کروا لے، کیا وہ اس قدر معمولی ہو سکتا ہے؟ وہ لوگ جو اس شخص کو ایک یقینی اور اچانک موت کو گلے لگاتے دیکھ کر بھی خاموش رہے، کیا وہ ابھی بھی انسانیت کے دعویدار ہو سکتے ہیں؟ اور کیا وہ دنیا رہائش کے قابل بھی ہے، جہاں اس قسم کے واقعات کا اکثر لوگوں کو علم بھی نہیں ہوتا، کیونکہ جن کو علم ہے وہ قصدا خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، اور جنہیں علم نہیں وہ اس کی بہ نسبت کہیں دلچسپ خبریں سننے میں مصروف رہتے ہیں؟

نو مہینہ کے اس عرصہ میں، جس دوران سامر العیساوی انتہائی تکلیف دہ بھوک برداشت کرتا رہا، قابلِ رحم کون تھا؟ کیا وہ شخص جو اپنی قوم، اپنے رب اور اپنے ایمان کے لئے لڑنے کا حوصلہ رکھتا تھا؟ یا ‘ہم’، عام انسانیت، جو اس کے لئے ایک لقمہ کی بھی قربانی نہیں دے سکی؟ کیا سامر عیساوی مر رہا تھا؟ یا ہماری مرتی ہوئی انسانیت کو آخری ضربیں لگ رہی تھی؟

سامر العیساوی کی پکار پر کان دھرنے میں ناکام ہونے کے بعد بھی کیا اس دنیا کے باسی انسانیت یا حقوقِ انسانی کے فروغ کا دعوی کر سکتے ہیں؟ زمانہء جاہلیت میں تو یہ ممکن بھی ہوتا؛ لیکن آج، اکیسویں صدی عیسوی میں، جبکہ دنیا تہذیب اور شائستگی کا دعوی کرتی ہے، حقوقِ انسانی کے احترام اور فروغ کا دعوی کرتی ہے، اور ان حقوق کو ہر ایک چیز پر فوقیت دینے کی باتیں کرتی ہے، تمام انسانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے خدائی فوجداروں کو متعین کرتی ہے خواہ اس کے لئے خونی جنگوں اور ملک کے ملک تباہ کرنے کی نوبت ہی کیوں نہ آئے؛ کیا ابھی بھی اس قسم کے المیوں اور سانحوں کے باوجود ایسے دعوے کئے جا سکتے ہیں؟ کیا سامر العیساوی کے اس معاملہ نے ایسے ہر دعوی کو معتبریت سے بالکل عاری نہیں کر دیا ہے؟

اس پو مستزاد یہ کہ کسی بھی مثبت ردِ عمل کی تقریباً مکمل غیر موجودگی میں بھی منفی ردودِ عمل بہت سے ہیں جو کہ انتہائی سنگدلانہ ہیں۔ اسرائیلی فوج اور جیل کا عملہ ہڑتال کرنے والے اس شخص کی بے رحمانہ پٹائی اور جیل کے ہسپتال میں اس کی صحت کی طرف سے لا پروائی پر اتر آیا، اس کے خاندان کو لگاتار ہراساں کیا گیا اور ان کی رہائش گاہوں پر چھاپے مارے گئے، اس کے بھائیوں اور بہنوں کو گرفتار کیا گیا اور جسمانی اذیتیں دی گئیں، اور حکام نے اس ہڑتال کو منسوخ کرنے کے بدلہ میں اس کو کسی دوسرے ملک بھیج دینے کی کوشش کی۔

لیکن سب سے زیادہ بے رحمانہ ردِ عمل اسرائیلی دانشوروں کی علامتی پیزا کی پیشکش تھی، جب انہوں نے وعدہ کیا کہ اگر وہ کڑوڑوں فلسطینی پناہ گزینوں کے واپسی کے حق کے مطالبہ سے دستربردار ہو جائے، آباد کاروں کی ظالمانہ طور پر اور نا حق حاصل کردہ زمین انہیں بخش دے، اپنے وطن کی سر زمین پر ایک دوسری ریاست کے قیام، اور اپنے بھائی بہنوں کے اپنے ہی ملک میں دوسرے درجہ کے شہری ہونے کو قبول کر لے، تو ہی یہ معزز دانشوران دخل اندازی اور اپنی حکومت کو سامر العیساوی کے گلے کے طوق کو قدرے ڈھیلا کرنے کی درخواست کرنے کا احسان کریں گے۔

چنانچہ حقوقِ انسانی کا کوئی بھی علمبردار سامر العیساوی کی مدد کو نہیں آیا۔ مسلم امت بھی زیادہ تر اندھی بہری بنی رہی، گویا نہ تو العیساوی ان کا اپنا تھا نہ ہی وہ لوگ جن کے لئے وہ لڑ رہا تھا۔ اس نے سب کچھ تنہا کیا، وہ اور اس کے ہم وطن منگل کو تنہا فتح یاب ہونے تک ظلم وجبر اور اسرائیلی استبداد کے خلاف جنگ لڑتے رہے۔ العیساوی کے پختہ اٹوٹ عزم نے اسرائیلی کیمپ کے غرور کو توڑ دیا، اور بالآخر اسرائیلی حکومت نے سامر العیساوی کے ساتھ ایک معاہدہ پر دستخط کئے، جس کے بموجب اس کو امسال دسمبر کی 23 تاریخ کو رہا کرنے کا اور اپنے محبوب وطن القدس واپس جانے کی اجازت دینے کا وعدہ کیا گیا۔ اس کے بدلہ میں العیساوی نے اپنی 8 مہینہ پر محیط ہڑتال ختم کر کے سپلیمنٹ لینے پر رضامندی کا اظہار کیا۔

یہ حقیقت اطمینان بخش ہے کہ انسانیت ابھی بھی بہت سے لوگوں میں نہ صرف زندہ بلکہ بیدار بھی ہے: یہ جوان شخص جس نے اپنے ہم وطنوں کے حقوق کی خاطر ایک یقینی اور اچانک موت کا خطرہ مول لیا، اور وہ لوگ جو اس کے نام پر کھڑے ہوئے اور اس کی آزادی کی خاطر اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈالا۔ ٹویٹر پر ڈھائی مہینوں تک ایک طوفان سا رہا۔ ڈاکٹر طارق شدید عرف ڈاک جاز کی قیادت میں سرگرم فلسطینیوں کی ایک جماعت ٹویٹر پر یہ طوفان #Twitterstorms لاتی رہی، جس کے تحت وہ سامر العیساوی کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر کوئی رجحان trend منتخب کرتے تھے اور اس کو ٹویٹ کرتے تھے یہاں تک کہ وہ عالمی رجحانات میں سر فہرست آ جاتا تھا۔

منگل کو وہ #IssawiDefeatsIsrael (العیساوی نے اسرائیل کو شکست دی) نامی رجحان پر ایک گھنٹہ سے زیادہ تک ٹویٹ کرتے رہے۔ ٹویٹر صارفین نے نہ صرف ظلم واستبداد کے خلاف لڑنے اور اپنے خالی معدہ کے سوا کسی بھی ہتھیار کے استعمال کے بغیر اسرائیل کو شکست دینے پر سامر العیساوی کی تعریفیں کیں، بلکہ اس فخر اور اعتماد کا بھی بھرپور اظہار کیا جو اس کی جنگ کے نتیجے میں ہر بامقصد جنگجو نے محسوس کیا، نیز اس یقین کی بھی تجدید کی کہ حق کو طاقت کے ذریعہ کچلا نہیں جا سکتا۔ ٹویٹر صارفین نے اس ہیرو پر فخر کا اظہار کیا جس نے القدس میں رہائش کا حق بھوک کے بدلے خرید لیا، اور بعض نے وضاحت کی کہ وہ القدس میں رہائش کی اجازت پر نہیں بلکہ اس کے ڈھانچہ پر بچ رہنے والے ذرا سے گوشت کی خوشی منا

رہے تھے، کیونکہ القدس میں رہائش کا حق تو اس سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا تھا؛ وہ تو اس کو مل کر ہی رہنا تھا، خواہ زندگی میں یا موت کے بعد!

Ghareebah is doing her MA in English, a passionate Indian Muslimah, searching for the higher truths.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 143

Trending Articles