PKKH Exclusive
Translated by Ghareebah,Original article is here
اپریل کے مہینہ نے تخیل کے پل پل بدلتے پردے پر مزید پے در پے واقعات نقش کئے ہیںتک بھی نہ کہہ سکے۔
، ایک کے بعد ایک آنے والے واقعات کو سمجھ پانا بھی ایک امتحان ہے، اور اس امتحان میں کامیابی دن بہ دن مشکل ہوتی جا تی ہے۔
اپریل کے آغاز سے ہی پاکستانی افواج ان شر پسند عناصر کے خلاف براہِ راست تصادم میں مصروف ہو گئیں جو قبائلی ڈھانچے میں بہت گہری جڑیں رکھتے ہیں، اور بظاہر ان شہریوں جیسے ہی نظر آتے ہیں جن کے قتل کے درپے ہیں۔ موسمِ بہار کے رنگوں کے کھلنے کے ساتھ ہی، پاک فوج اپنے جوانوں کو وطن کی چاردیواری میں اپنے خون سے رنگ بھرنے کے لئے تیار کر رہی ہے؛ وہ اسی طرح جشنِ بہار مناتے ہیں، 25 سے زائد مسلح اہلکار اس وطن کی خاطر اپنی جانیں دے چکے ہیں۔ فوج نے اپنی کارروائیاں مارچ میں ہی شروع کر دی تھیں، جب انہوں نے مصیبت زدہ علاقوں سے شہریوں کے انخلاء کا انتظام کیا۔ اب جبکہ دہشت پسند گروہ وادی میں توت سر، اکؑا خیل اور تیراہ علاقوں میں محدود ہو گئے تھے، ان کی پوری بنیاد ٹوٹنے لگی۔ ایس اے حقانی، تحریک طالبان پاکستان کے شوریِ عظمی کے سربراہ نے اچانک استعفی کا اعلان کر دیا، اور اس کے ساتھ 20 نکات کی ایک فہرست شائع کر کے واضح کیا کہ تحریکِ طالبان پاکستان کس طرح مستقل بے انتظامی اور باہمی رابطہ اورنظم ونسق کی شدید کمی کی مثال رہی ہے، ایک ایسی تنظیم جو قائدانہ نشست خالی ہونے کی وجہ سے مستقل بدلتے ہوئے ذرائع کے رحم وکرم پر ہے۔ تاہم فوج ان خطرناک گروہوں کو منتشر کر دینے میں کامیاب معلوم ہوتی ہے، اگرچہ
ان کا منتشر ہونا بذات خود ایک خطرہ اور فوج کے لئے ایک اور چیلنج ہے۔
تحریکِ طالبان پاکستان اور لشکرِ اسلام کا منتشر ہونا محض فوج کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ 2014 کے امریکی انخلاء کے قریب آتے آتے فوج نے اس کی پیشین گوئی کر لی تھی، بیرونِ سرحد شر انگیز عناصر کی طرف سے امداد کی فراہمی میں رکاوٹ آتے ہی تحریکِ طالبان پاکستان اور اس جیسے گروہوں کے شکست کھا جانے کی امید تھی، اور یہیں سے ولایت ہائے متحدہ/ناٹو/ہندوستان اتحاد کے مشکوک سرحد پار کیمپوں کی بوکھلاہٹ بھی سمجھ میں آ جاتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مغربی باز گھٹنے ٹیک چکے ہیں اور مشرقی سفید ہاتھی کی ہوا نکل چکی ہے، چنانچہ انہوں نے انہی کو امداد اور عطیات کی فراہمی بند کر دی جنہیں اپنی جنگ کو مشتعل رکھنے کی غرض سے وہ گزشتہ دہائی میں مستقل مزاجی سے شر انگیزی کی تربیت دیتے رہے ہیں۔ محبت اور جنگ میں کوئی قواعد نہیں ہوتے، لیکن شاید ناٹو اور اس کے اتحادیوں کو یہ توقع نہیں تھی کہ دوسرے فریق کا بھی یہی اصول ہو سکتا ہے۔ بالآخر پاکستان اور افغانستان تو بدستور اپنی جگہ پر قائم رہے، لیکن قسمت آزماؤں کو منہ چھپا کر پسپا ہونا پڑا۔
ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان دباؤ کے تحت گھبرانے لگتا ہے، جیسا کہ وہ کشمیر میں ثابت بھی کر چکا ہے۔ افغانستان میں اپنی خستہ حالت اور اپنی قیادت کے تمام خوابوں کی شکستگی کا بدلہ اس نے کشمیر کی امن پسند عوام پر قہر برسا کر لیا۔ افضل گرو سے ابتداء کرتے ہوئے اس نے وادئ کشمیر میں قتل وغارت گری کا ایک سلسلہ شروع کر دیا، اور وادی کے رہنمائے آزادی سید علی گیلانی کو اپریل کے مہینہ میں لگاتار ہراساں اور گرفتار کر کے وادی کے سینے پر اپنا پاؤں مسلط رکھا۔
اس دوران پاکستان انتخابات کے مرحلہ میں داخل ہو گیا ہے۔ تھکی ہاری اور عاجز آ چکی پاکستانی عوام کو ایک مرتبہ پھر انہی حکمرانوں کی طرف سے بے بنیاد وعدوں کے بلند وبانگ نعروں کا سامنا ہے جو انہیں دسیوں سال سے لوٹتے آ رہے ہیں۔ ختم نہ ہونے والی بد عنوانی اور ظلم وجبر نے عام پاکستانی کو تبدیلی کے امکان سے ہی غافل کر دیا ہے، جبکہ جمہوری شہنشاہ موجودہ حالت پر مطمئن اور گناہ کے احساس اور ضمیر کی چبھن سے عاری ہیں۔
موجودہ تاریک حالات کے باوجود پی-کے-کے-ایچ مایوسی کے بجائے امید، تبدیلی اورترقی کے امکان پر یقین رکھتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انسان کے تمام مسائل کا حل معیار کی ایک سادہ سی تبدیلی میں مضمر ہے، جس کی بنیاد پر اچھے اور برے کو سادہ اور آسان ترین کسوٹی پر پرکھا جا سکے، اور جہاں معنوی خوبیوں کو بھی ظاہری خوبیوں سے زیادہ نہیں تو کم از کم برابر اہمیت ضرور دی جائے۔ ظاہری اشاروں کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن ظلم وجبر، ناانصافی، زیادتی، تھکن اور مایوسی کو دل اور دماغ ہی محسوس کرتے ہیں، اور ان کے مقدمات دل ودماغ میں ہی منعقد ہو سکتے ہیں۔ یہی بات ہمیں دستور کے بند 62، 63 تک لے کے آتی ہے۔
ایک ایسا معاشرہ جس میں اچھے اور برے کا ایک عام تصور یا واضح پہچان بھی نہ ہو، یقینی تباہی کے ہی راستہ پر ہوتا ہے۔ صادق اور امین پر ہونے والی تمام بحث دماغ کو بھک سے اڑا دینے والی ہے۔ کیا ہمیں یہ بھی حق نہیں کہ ہمارے حکمران کم از کم جھوٹے، بد عنوان اور دھوکہ باز نہ ہوں؟ ایسا کیوں ہے کہ دو عام لوگ تو بازار میں ایک معمولی کاروبار بھی سچائی اور باہمی اعتماد کے بغیر نہیں کر سکتے، لیکن پوری قوم کے معاملوں میں فیصلے کرنے والے اتنے بڑے عہدے ایسے افراد کو سونپے جا سکتے ہیں جو محض سچائی اور ایمانداری کے سوال پر ہی ہکا بکا رہ جائیں؟ کیا واقعی حق اور باطل کی تمیز کرنا ناممکن ہے؟ یا یہ لامذہب ذہنیت رکھنے والے میڈیا کا انسانی ذہن کی بھلے برے سے متعلق اس بنیادی اور فطری سمجھ بوجھ پر ایک اور حملہ ہے جس کی بنیاد پر معاشرے تعمیر ہوتے اور کھڑے ہوتے ہیں، تاکہ وہ صحیح اور غلط کی ہر ممکن تمیز بھول جائے؟
یہ سب ہو ہی رہا تھا کہ 16 اور 17 اپریل نے انسانیت پر دو مزید ضربیں لگائیں۔ اس میں سے پہلا بوسٹن ماراتھن میں ہونے والا دھماکہ تھا، جس میں اگرچہ صرف 4 جانیں گئیں اور سو سے زائد زخمی ہوئے، تاہم دنیا کو خدشات نے خوف زدہ کر دیا تھا۔ یادداشتوں میں 11 ستمبر پھر سے تازہ ہو گیا، اور دنیا بھر میں ایک پیغام گردش کرنے لگا؛ جب امریکہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو مزید مضبوط بنانے کے لئے اس واقعہ کو بھی ذریعہ بنائے گا تو، امریکی قہر کا اگلا نشانہ کون ہو گا؟ دنیا امریکہ کی جدید ترین صورت سے پھیلائی ہوئی فورتھ جنریشن حکمتِ عملی کی اس دہشت انگیزی کے اثرات سے خوف زدہ ہے جس کو عام ذرائعِ ابلاغ ‘امن مشن’ کا نام دیتے ہیں۔
زمین ایک مرتبہ پھر سے پھٹ گئی، اس مرتبہ اپنی سطح سے کہیں نیچے، ایران کے شہر سراوان میں۔ 7،8 کی شدت کے جھٹکے کراچی تک محسوس کئے گئے۔ بلوچستان کے اندرونی دور دراز علاقوں میں، جہاں سڑکیں اور بنیادی ڈھانچہ بھی کم ہی نظر آتا ہے، سخت تباہی آئی ہے۔ مشؑا خیل اور دیگر علاقے ایسے ہیں کہ جانی نقصان اور تباہی کی خبریں پہنچنے میں بھی ایک دن لگ گیا۔ جن کے کچے مکانات منہدم ہو گئے ہیں یا جانور مارے گئے ہیں، وہ زندگی کس طرح گزاریں گے؟ ان کی مدد کو کون آئے گا، جبکہ اپنے صدر صاحب نے زلزلہ زدگان سے محض ہمدردی کے اظہار پر اکتفا کیا ہے؟ بظاہر کوئی بھی سرکاری شعبہ اس قسم کے ہنگامی حالات میں امدادی کارروائیوں کے لئے ذمہ دار نظر نہیں آتا، ہم قومی شعبہ برائے بحرانی انتظامات کی کوئی سرگرمی نہیں دیکھتے؛ بلکہ محض فوج اور کچھ نجی خیراتی اداروں کی امدادی کوششیں نظر آتی ہیں، جبکہ ہمارے بیشتر سیاسی قائدین تو ان آفت زدہ بھائیوں کے لئے ایک لفظ تک بھی نہ کہہ سکے۔
Ghareebah is doing her MA in English, a passionate Indian Muslimah, searching for the higher truths