سکول کے زمانہ میں، علی ‘شیر’ تخلص کر کے شوقیہ شاعری کیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے ‘ایک دن شیر بھی وردی پہنے گا’ کے مرکزی خیال پر ایک نظم لکھی۔ بچپن سے ہی اس کو پاکستانی فوج میں شامل ہونے کا بیحد شوق تھا، اور یہ شوق نوجوانی تک اس کے ساتھ رہا۔ بارہ برس کی عمر میں ہی اس نے اپنے چچا سے فوجی وردی کی خصوصی فرمائش کی۔ انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے بعد اس کو یقین تھا کہ اس کے خوابوں کی تعبیر کا وقت آ گیا ہے، لیکن جب اس کو آئی ایس ایس بی کے امتحان میں مسترد کر دیا گیا تو اس کو سخت صدمہ ہوا۔ تبھی اس کے گھر والوں کو اس کی فوج کے لئے حیرت انگیز حد تک شدید محبت، اس میں شامل ہونے کے چٹانوں جیسے پختہ عزم، اور داخلہ کے آخری امکان اور موقع تک اس میں شمولیت کی امید سے عدم دستربرداری پر اصرار کا علم ہوا۔ اس نے اپنے جسم کو مضبوط اور دماغ کو ہوشیار بنانے کے مقصد سے ورزشیں شروع کر دیں، تاکہ وہ جنت کے چوکیداروں کو متاثر کر لے، کہ وہ اس کو پاکستانی فوج نامی جنت میں داخلہ کی اجازت دے دیں۔
دوسری کوشش میں منتخب ہو جانے پر اس نے سن 2005 – 07 سیشن کے لئے پی ایم اے میں شمولیت اختیار کر لی۔ پی ایم اے میں وہ سخت ترین جسمانی محنت اور ورزش کرتا رہا، دوڑیں اور باکسنگ کے مقابلے جیتتا رہا، اور اپنی اجتماعی روح اور ترغیبی مہارتوں میں اضافہ کیا۔ لیکن اس کے واقف کاروں میں کسی کو علم نہیں تھا کہ آغاز سے ہی، ایس ایس جی کا حصہ بننے
اور فعال جنگ میں شریک ہونے کی امنگ اس کے دل میں پنپتی رہی تھی، کہ وہ ہمیشہ ہی مادی چیزوں کے بجائے اعلی ترین خوبیوں اور خصوصیات کا متلاشی رہا تھا۔
علی کے متعلقین اس کو فوج کے کسی نسبتاً آرام کرنے والے دستہ کے انتخاب کا مشورہ دیتے رہے، لیکن وہ جنگ میں مصروف دستوں کی تلاش میں رہا، اور جنوبی وزیرستان میں تعینات 8 این ایل آئی میں شمولیت اختیار کر لی، جبکہ یہ فوجی دستہ پاک افغان سرحد پر مقیم شر پسندوں کے خلاف فعال جنگ میں سرگرم تھا۔
جنگ کے لئے پر جوش یہ حوصلہ مند اور جری، شجاعت سے بھر پور 22 سالہ نوجوان کوہ شکن بٹالین کا پلاٹون کمانڈر بنا دیا گیا، جو مستقبلِ قریب میں المیزان نامی کارروائی کرنے والا تھا۔ علی نے اپنے جوانوں کو اس طرح تربیت اور حوصلہ افزائی کی کہ وہ اپنے کمانڈر کی قیادت میں ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لئے تیار تھے۔ اس کارروائی میں علی اپنے دستہ کو تفویض کردہ خطرناک، اجاڑ پہاڑی علاقہ کو صاف کرنے میں آگے آگے رہا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہیوی مشین گنوں کی فائرنگ کا سامنا کیا لیکن وہ کند کی چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، جہاں شر پسندوں کو پسپا کرنے سے پہلے انہیں دوبارہ ایک گھنٹہ تک بھاری فائرنگ کا تبادلہ کرنا پڑا۔ علی اپنے ساتھیوں کے ساتھ چار مہینوں تک پانی، خوراک اور پناہ کی قلت کے باوجود اس چوٹی پر رہا، یہاں تک کہ فوج اس علاقہ میں مستقل بیرکوں کے ساتھ مورچہ بند ہونے کے لئے تیار ہو گئی۔ علی گھڑ سواری کا بہت شوقین تھا، اور اس کو اس جنگل میں ایک جنگلی گھوڑا مل گیا جس میں اس کے دستہ کی چھاؤنی تھی۔ بس پھر کیا تھا، علی زین کے بغیر اس جنگلی گھوڑے پرکند کی چوٹی پر گشت کیا کرتا، حالانکہ زین کے بغیر گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سواری کرنا مہارت، توازن اور نظم کا متقاضی ہے، کیونکہ اس صورت میں گھڑ سوار کے پاس توازن کی کمی کو پورا کرنے کے لئے کوئی دوسرا سہارا نہیں ہوتا۔ علی اپنے جوانوں اور اپنے دستے کے تحفظ کے خیال سے تنہا گشت کیا کرتا تھا، جبکہ بقیہ لوگ آرام کرتے تھے۔
جب آخر کار وہ لوگ نیچے آئے تو علی لیوٹینینٹ بننے کے لئے مکمل طور پر تیار تھا۔ اس کے لئے مزید عزت افزائی کا باعث یہ تھا کہ جنرل جاوید سلطان اور بریگیڈئر افضل چیمہ جیسے لوگ اس کے کندھے پر بلا سجانے کے لئے آئے۔ یہ دونوں عظیم سپاہی کچھ ہی عرصہ بعد ایک ہیلیکوپٹر حادثہ میں شہادت سے فیضیاب ہوئے، اور علی اپنے والد سے کہا کرتا تھا کہ، “ابو، میری دونوں جانب کھڑے لوگ اب شہید ہیں، شاید کسی دن میں بھی شہید ہوں گا۔”
میجر جاوید سلطان لیوٹینینٹ علی کے کندھے پر بلا سجاتے ہوئے
علی کو بہادری کا تمغہ دینے کے احکامات ہیڈ کوارٹر کو دے دئے گئے تھے۔ اس کے ساتھیوں نے اس کو ‘بہادر علی’ کہنا شروع کر دیا، اور 8 این ایل آئی سیالکوٹ منتقل ہو گئی۔ علی کو اپنے یونٹ کمانڈو دستہ کو ڈیویژن کی سطح پر مقابلوں کے لئے تربیت دینے کے تفصیلی احکامات دئے گئے جو کہ فوج کے مشکل ترین مقابلے ہیں۔ اس کے دستہ نے ٹرافی جیتی اور 8 پیادہ ڈیویژن میں اس کو بہترین عہدیدار قرار دیا گیا۔ لیکن علی کی قسمت میں آرام کے دن نہیں تھے۔ انہی دنوں ہندوستان میں ممبئی حملوں کی سازش رچی گئی اور اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کے باعث سرحدوں پر فوجوں کی بھاری تعیناتی عمل میں آئی۔ میجر جنرل سعید علیم نے بوقتِ ضرورت ‘ریڈ’ نامی کارروائی کے لئے تیار کردہ دستہ کی قیادت کے لئے بذاتِ خود علی کا انتخاب کیا، لیکن اللہ نے ہمیں ایسی صورتِ حال سے بچا لیا۔
سیالکوٹ میں ان دو واقعوں کے درمیان علی نے اپنے جوانوں کے لئے دعوت کا انتظام کیا تھا اور اپنے خاندان کے افراد کو بھی مدعو کیا تھا۔ لاؤنج کی گزرگاہ میں سے گزرتے ہوئے علی نے دونوں دیواروں پر آویزاں شہیدوں کی تصویریں فخر سے اپنے والد کو دکھاتے ہوئے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا، “ابو، شاید ایک دن آپ کے بیٹے کی تصویر بھی یہاں لٹکی ہوئی ہو گی۔”
جب علی وائے او بی آئی کورس کے لئے کوئٹہ گیا، تو اس کو ساتھیوں نے این ایل آئی کا اے ایل آئی کہنا شروع کر دیا۔ علی مضبوط جسم کا مالک، جری، اور حوصلہ افزائی کا عادی تھا۔ وہ جہاں بھی جاتا تھا اس کو وفادار دوست مل جاتے تھے۔ کوئٹہ سے اس نے سیاچن گلیشیر میں اعلی ترین مقام، ‘مقامِ شیر’ میں قیام کے لئے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا۔ وہاں اس نے پچاس تحت الصفر سے بھی کم درجہء حرارت میں چھ ماہ تک برف باریوں اور برفانی زلزلوں کے درمیان گزارا کیا، جب وہ واپسی آیا، تو وہ ہمیں بتایا کرتا تھا کہ سفید چادر کی تنہائی اور خاموشی بذاتِ خود اداس کن اور آسیب زدہ سی ہوتی ہے، اور “وہاں ہم صرف بقا کا کھیل کھیلا کرتے تھے”۔ اس نے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ اور اس کے ماتحت ایک برف زدہ ساتھی کو لینے کے لئے ڈھلوان، پھسلن زدہ برفیلی پہاڑی سے نیچے گئے تھے، اور آخر میں پتہ چلا کہ وہ بقا کی جنگ ہار چکا ہے؛ ایک ساتھی کی موت، جو آپ کے ساتھ چند دن پہلے تک ہنستا اور کھاتا رہا ہو، بذاتِ خود ایک نا قابلِ برداشت جھٹکا ہوتا ہے! ‘مقامِ شیر’ پر طویل قیام کے بعد علی جسمانی طور ہر اتنا کمزور ہو گیا تھا کہ وزن کی کمی اور پٹھوں کی کمزوری کے باعث اپنے پیروں پر کھڑا بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ سیاچن سے واپسی پر اس کا وزن صرف 44 کیلوگرام تھا۔
سیاچن سے واپسی پر علی کی زندگی کا خوبصورت ترین خواب تعبیر پانے والا تھا، ایس ایس جی کمانڈو کورس کے لئے انتخاب۔ سیاچن کی مشکلات نے اس کے ایس ایس جی کے جوش کو ٹھنڈا نہیں کیا تھا۔ کم حوصلہ لوگوں کے لئے ایس ایس جی باعثِ دہشت ہو سکتا ہے، لیکن ایک مبارک کوکھ میں پیدا ہونے والے علی جیسے شیر دل کے لئے ایس ایس جی چہیتی دلہن کو گلے لگانے کے مترادف تھا۔ ریگستانوں اور جنگلات میں پڑاؤ ڈالنا، میلوں وسیع ندیوں میں لہروں کی مخالف سمت میں تیرنا، چار سو میل کا فاصلہ پیدل طے کرنا، شکار کر کے کھانا، آگ جلانا، رسیاں پھلانگنا؛ یہ تو ان ناقابلِ برداشت سختیوں اور مشکلات میں سے صرف چند گنے چنے نام ہیں جن کا یہ کمانڈو شکار ہوتے ہیں۔ وہ بھوک کا بھی شکار ہوتے رہے، زخمی ہونے والے ساتھیوں کی زندگی بچانے کی ہنگامی تدبیریں، اور بالآخر ایس ایس جی میں کامیاب ہونے والے 20 یا 30 ناموں میں سرِ فہرست رہنے کے لئے سخت مقابلہ کرتے رہے۔ لیکن انہوں نے زخمیوں کو بچانے اور پیچھے نہ چھوڑنے کا عہد کیا، دشمن کو تلاش کر کے قتل کرنے کا عزم کیا، اور سر زمین کو اپنی زندگی پر فوقیت دینے کا حلف اٹھا کر حقیقتاً کاغذ پر دستخط کئے۔
جس دن علی ایس ایس جی مکمل کر کے گھر واپس آیا، وہ اس کے بھائی کی شادی کا دن تھا۔ لگاتار آٹھ مہینوں تک جسمانی اور ذہنی مشقتوں سے گزرتے رہنے کے بعد اچانک آرام ملنے کی وجہ سے اس کا مکمل جسم اینٹھ گیا تھا۔ دس دنوں کے وقفہ کے بعد، علی نے باجور فاٹا میں سرگرم 5 کمانڈو بٹالین میں حاضری درج کروائی۔ ان دنوں باجور میں صورتِ حال مشکل تھی، فوج شہری آبادیوں کے اندر گھسے ہوئے دہشت پسند عناصر کے خلاف جنگ میں مصروف تھی۔ ہر بستی اور ہر گاؤں پر نئے سرے سے قبضہ کرنا، ان عناصر سے پاک کرنا اور مستقل نگرانی کے تحت عوام کو لوٹانا تھا، ہر دن ایک نئے علاقہ میں ایک نیا مشن اور ایک نئی کارروائی ہوتی تھی۔
مرد جنگوں میں شرکت اور لڑائی محض تفریح کے لئے نہیں کرتے، یہ تو سراسر بربریت ہو گی؛ مرد اپنی جانوں کے بدلے میں صرف دولت کا سودا نہیں کرتے، یہ تو سراسر شیطانی لالچ ہو گا؛ وہ مرد جو اپنی جانوں کا حلف اٹھاتے ہیں کسی اور ہی رخ کو دیکھتے ہیں، وہ زندگی کو مادیت سے آگے پھیلا ہوا دیکھتے ہیں، ان کو ایسے جہانوں کا علم ہوتا ہے جو عام سطحی نظر رکھنے والے مردوں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ یہ ‘مومن’ ہوتے ہیں، جو اپنا انتظار کرنے والے ایک عظیم ترین خدا پر یقین رکھتے ہیں، اور وہ اس تک صرف عزت کے ساتھ پہنچنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کے وعدہ پر یقین رکھتے ہیں، اور اپنے وعدے پورے کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے۔ وہ زندگی میں بھی اس کی گواہی (شہادت) دیتے ہیں، اور اس کے لئے مر کر بھی گواہی (شہادت) قبول کرتے ہیں۔ ایمان، ایمانی بھائیوں کے ساتھ باندھنے والا تعلق، اور ایمان والوں کی سرزمین کے چپہ چپہ کی حفاظت، یہی وہ اجزائے ترکیبی ہیں جو ان کے لہو کو گرم اور ان کے اجسام اوراعصاب کو مضبوط رکھتے ہیں اور خوف کو بے خوفی سے تبدیل کر دیتے ہیں۔
باجور میں اپنی زندگی کی آخری کارروائی میں شرکت سے پہلے علی 3 کامیاب کارروائیوں کا حصہ رہا۔ جب بھی کسی نئے مشن یا کارروائی کی خبریں گردش کرتیں، علی اپنے آپ کو رضاکار کے طور پر پیش کرنے کے لئے اپنے افسروں کے پاس جاتا، اور اگر وہ اس کو انکار کرنے کی کوشش کرتے، تو وہ اپنی طرف سے اعلی عہدیداروں سے بات کرنے کی رخواست کرتا۔ اس کے افسر اس کے حوصلہ کی بہت قدر کرنے کے باعث اور اپنے سب سے توانا اور قابلِ اعتماد ہتھیار کی حیثیت سے اس کو نسبتاً کم فائدہ مند کاموں سے پیچھے رکھنے کی کوشش کرتے تھے، جبکہ علی ہر مشن کو اصل مقصد ہی سمجھتا تھا۔
بیکھنا 2 نامی کارروائی کا آغاز چھ مئی 2011 کو ہوا، وقار فورس نے شیخ بابا سے لے کر چیتانہ تک کی بلندیاں خالی کر دی تھیں، اور اس کے آگے دشمن کے قلعہ بند مورچے تھے۔ سخت مزاحمت اور بلندیوں سے ہونے والی شدید فائرنگ وقار فورس کے زلزالیوں کی پیش قدمی کو خطرے میں ڈال چکی تھی۔ کیپٹن علی خفیہ شب خون کے لئے رضاکار بن گئے۔ علی اور اس کے چند ساتھیوں نے شر پسندوں کو بظاہر ادنی پوزیشن سے لیکن در حقیقت رازداری اور عزم کی بلندی سے چار ہلاکتوں کا نقصان پہنچایا، اور شر پسندوں کو گولونو کی وادی میں دھکیل دیا جس سے افغانستان کے راستے بند ہو گئے جو ان کے داخلہ اور نکاس کا اصل راستہ تھا۔ آٹھ اور نو تاریخ کی درمیانی رات کو علی نے ایک اور بظاہر ناممکن کام کے لئے رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو پیش کیا، وہ پوائنٹ 1771 سے شہید اور اس کے سامان کی وصولی چاہتا تھا، اور اس نے کر دکھایا؛ وہ ایک ایسے بھائی کے باقیات واپس لایا جو ایک مختلف سمت میں کامیاب ہو چکا تھا، جس کے باقیات اس کے سوگواروں کے لئے تسلی کا باعث ہوتے، لیکن یہ سب اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالے بغیر ممکن نہیں تھا۔
بائیس اور تئیس کی درمیانی رات کو ان کا مشن والیدید کی چوٹی پر قبضہ کرنا تھا۔ وہ چھپ کر حرکت کر رہے تھے، علی سب سے آگے تھا، افسر کی حیثیت سے اس نے اندھیرے میں دیکھنے میں معاون سامان پہن رکھا تھا، جو اس کے قریب والے جوان کے پاس نہیں تھا۔ وہ لوگ جیسے ہی چھلانگ لگانے والے مقام پر پہنچے، علی کو ایک گھر کی چھت پر دہشت گردوں کی موجودگی کا احساس ہوا، اس نے فوراً ہی اپنے قریبی جوان کو نیچے دھکیلا، اپنے ساتھیوں کو روکا، اور مجوزہ ترتیب کی تصدیق کے لئے دستہ کے ہیڈ کوارٹر کو اشارہ دیا۔ علی اپنا بے خوف سینہ دشمن کے سامنے تان کر سب سے آگے کھڑا تھا اور اپنے جوانوں اور اپنے وطن کی حفاظت کر رہا تھا۔ اس شخص کے حوصلہ کا تصور کیجئے جو خاندان اور آسائشوں کو پیچھے چھوڑ کر، اپنے ہم وطنوں کی جان اور آرام کی خاطر اپنی زندگی اور آرام کی قربانی ک عہد کر کے میدانِ جنگ میں کھڑا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کہ اس کے اشارہ کی تصدیق ہوتی، لمحہ کے ایک حصہ میں، دہشت گردوں نے گولیاں چلانی شروع کر دیں۔ جب علی نے اپنے جوان کو دھکیلا، رکنے کا اشارہ کیا اور تصدیق کے لئے پیغام بھیجا، لمحہ کے اسی حصہ میں وہ چھپی ہوئی مہلک گولی اس کی گردن کو پار کر کے، اس کو نیچے گرا کر اس کی فوری شہادت کا باعث بن گئی۔
علی کا جسدِ خاکی ہمارے پاس پہنچا، تو اس کے چہرے پر ایک واضح مسکراہٹ ثبت تھی، اور وہ ایک دولہا لگ رہا تھا، جس کے جنتی بھائی شاید اس کا خوش کن استقبال کر رہے تھے۔ ایک ایسی مسکراہٹ گویا وہ دوسرے جہان کو بچشمِ خود دیکھ رہا ہو اور وہ دوسرا جہان اس کی آمد پر قبولیت اور خوش خبریوں کی مہر ثبت کر رہا ہو۔ علی کا جنازہ ویسا ہی ہوا جس کی اس نے خواہش کی تھی، اپنے ساتھیوں کے درمیان، پاک پرچم تلے، عزت اور تکریم کے ساتھ۔ علی کو ‘تمغہء بسالت’ سے نوازا گیا۔
علی کے بعد ہمیں اس کے ساتھیوں اور دیگر ذرائع سے آئے دن نوجوان ہلاکتوں کی خبریں ملنے لگیں۔ اس کا صفحہء فیس بک، کیپٹن علی محمود شہید، اس قسم کے تمام سانحوں اور المناک واقعات کی تازہ خبریں دیتا ہے۔ ہم خوبصورت نوجوانوں کو روزانہ اپنے محبوب رب کے نام پر وطن کے لئے جانیں قربان کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اگر یہ ایمان کا اعلی ترین درجہ نہیں ہے تو کیا ہے؟ کیا یہی اللہ کے وہ بندے نہیں جو منتخب اور مقبول ہیں؟ کیا انہوں نے وطن کی مٹی کے لئے اپنی جانیں نہیں دیں؟ کیا یہی اصلی ہیرو نہیں؟
مندرجہ بالا تفصیلات سے یہ بآسانی واضح ہے کہ علی نے شہادت کو اتفاقاً گلے نہیں لگایا، بلکہ وہ اس کا متلاشی تھا، اس کا پیاسا تھا، اور اس نے اس کے حصول کی راہ میں کوئی بھی ایسا موقعہ نہیں گنوایا، جس میں اس کو موت کے خوف کو دور پیچھے چھوڑ کر اپنے مقصد کی تکمیل کا موقعہ ملتا۔ ہر مشن اس کے لئے آخری موقعہ تھا اور ہر مرتبہ جب وہ کامیاب لوٹ آتا تھا، تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا تھا کہ اس نے اس کو اپنے رشتہ داروں سے دوبارہ ملنے کا موقعہ دیا۔ لیکن اس کا اصل مقام میدانِ جنگ تھا، جہاں وہ دولہا ہوتا تھا اور شہادت اس کی مطلوبہ دولہن ہوتی تھی۔
سلام ان ماؤں کو جو اپنی کوکھ سے ایسے مردوں کو جنم دیتی ہیں، سلام ان والدوں کو جو جدائی کا غم سہتے ہیں، سلام ان بھائیوں اور بہنوں کو جو اپنے درمیان میں سے ایک کو اعلی مقاصد کے لئے قربان کر دیتے ہیں، اور سلام اس سرزمین کو جس کو ایسے عاشق اور محافظ دستیاب ہیں۔
Written by Aneela Shahzad and translated by Ghareebah