PKKH Exclusive|By Talha Ibraheem and A.A.Siddique
کل ایرانی شہر سراوان سے شروع ہونے والے ایک زبردست زلزلہ کے جھٹکے جنوب ایشیا اور مشرق وسطی تک پہنچے۔ شعبہء ارضیاتی تحقیقات برائے ولایات ہائے متحدہ امریکہ کی جانب سے ریکٹر سکیل پر 7،8 درج ہونے والا یہ زلزلہ سطح زمین سے 50 میل نیچے شروع ہوا تھا۔
پاکستانی بلوچستان کے مشاخیل علاقہ میں ہمارے نامہ نگاروں کے مطابق کم از کم 34 لوگ مارے گئے ہیں اور 80 سے زائد زخمی ہیں۔
ابتدائی اندازوں نے بہت ہی ہولناک تصویر پیش کی تھی، جب آزاد امدادی کارکنوں نے 74 ہزار افراد کے براہ راست یا بالواسطہ طور پر متاثر ہونے اور بے گھر اور بنیادی ضرورتوں کو محتاج ہو جانے کی باتیں کی تھیں۔ سرکاری ایرانی ذرائع نے اطلاعات دی تھیں کہ تقریبا درجنوں افراد زخمی ہو گئے تھے، لیکن ان کے علم میں کسی جانی نقصان کی خبر نہیں آئی تھی۔
منگل کی شام تک جماعت الدعوۃ کی امدادی ٹیم فوجی ڈاکٹروں اور سرحدی نیم فوجی دستوں کے ساتھ بحران زدہ علاقہ تک پہنچ کر اپنے امدادی خیمے نصب کر کے امدادی کارروائیوں کا آغاز کر چکی تھی۔
ٹویٹر پر افواج پاکستان اور جماعت الدعوہ کی امدادی کارروائیوں کا خوب چرچا رہا
پاکستانی سرحدوں سے 26 میل کے فاصلے پر پیدا ہونے والے زلزلہ کا مرکز سیستان میں 51 میل زیر زمین تھا۔ جھٹکوں کے اثرات نئی دہلی، جدہ اور دبئی تک بھی محسوس کئے گئے تھے۔
ناہموار پہاڑی خطوں نے دونوں ممالک میں امدادی کارروائیوں کو مشکل بنا دیا ہے۔ جماعت الدعوہ کی امدادی ٹیم کے نائب رابطہ کار شاہد کے مطابق جانی نقصان میں اضافہ کی توقع ہے۔ مشکل ناہموار راستوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “مکمل تصویر ایک یا دو دن تک ابھر کر سامنے آئے گی۔”
ایرانی سرکاری عہدیداروں نے ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ‘فارس’ کے ذریعہ نشر کی گئی 40 ہلاکتوں کی ابتدائی خبروں کی تردید کی۔ سیستان کے گورنر حاتم ناروی نے خبر رساں ذرائع سے آزادانہ طور پر نشر کی گئی خبروں کے بجائے دفتر برائے بحرانی امور کی رپورٹ پر انحصار کرنے کو کہا۔ دفتر برائے بحرانی امور کے ڈائرکٹر رضا اربابی نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ “کوئی بھی ہلاک نہیں ہوا۔”
ایرانی عہدیداران کا خود کو یقین دہانی کروانے والا یہ رد عمل جوہری حفاظتی اقدامات پر بین الاقوامی رد عمل کے جواب میں سامنے آیا۔ 9 اپریل کو بوشہر جوہری توانائی کے مرکز میں آنے والے 6،3 ڈگری کی شدت والے زلزلہ نے تقریبا 40 افراد کو ہلاک اور 8 سو سے زائد کو زخمی کر دیا تھا۔
بین الاقوامی شعبہ برائے بحرانی امور کے ایرانی ماہر علی واعظ نے بیان دیا کہ، “۔۔۔ حالیہ جھٹکے ایک خوفناک یاد دہانی کرواتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ایرانی خطے حقیقتا کس قدر زلزلوں کا شکار ہیں اور ایرانی حکومت کے لئے کسی جوہری ہنگامی صورت حال کے لئے تیار رہنا کس قدر اہم اور ضروری ہے۔”
پاکستانی حکومت کا رد عمل
صدر آصف علی زرداری نے قیمتی جانوں کے ضائع ہونے اور تباہی پھیلنے پر گہرے صدمہ کا اظہار کیا۔ انہوں نے ایرانی حکومت کو امداد کی بھی پیش کش کی۔
صرد زرداری نے کہا کہ “پاکستانی عوام آزمائش کے اس وقت میں اپنے ایرانی بھائیوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔”
زلزلہ کے بعد ازاں جھٹکے
امدادی کارروائیوں کی نگرانی کرنے والے ایک مقامی صحافی کے مطابق زلزلہ کے بعد آنے والے ریکٹر سکیل پر 6،0 کی شدت والے جھٹکے بھی بدھ کی صبح کو آس پاس کے علاقوں میں محسوس کئے گئے۔
طلحہ ابراہیم پی کے کے ایچ میں شریک تحقیق کار ہیں۔ ان سے ahlatibr@hotmail.com
ڈاکٹر آمنہ صدیقی دواساز اور آزاد مصنف ہیں؛ ان کی دلچسپیاں مذہب اورانسانی نفسیات سے متعلق ہیں۔ وہ The Dead Poets Sanctuary میں اپنا بلاگ لکھتی ہیں۔
_ _