PKKH Exclusive
Translated By Ghareebah
علامہ اقبال کا پیغام بنام محمد علی جناح بتاریخ 28 مئی 1937
نجی
عزیز جناب جناح صاحب
مناسب وقت سے موصول ہونے والے پیغام کے لئے آپ کا بہت شکریہ۔ مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ میں نے لیگ کے پروگرام اور آئین میں تبدیلی کے حوالے سے آپ کو جو لکھا تھا آپ اس کو ذہن میں رکھیں گے۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں تک مسلم ہندوستان کا سوال ہے، تو آپ کو صورت حال کی نزاکت کا مکمل طور پر اندازہ ہے۔ لیگ کو بالآخر یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا وہ ہندوستانی مسلمانوں کے بالائی طبقات کی ہی نمائندہ جماعت رہے گی یا مسلم عوام کی جنہوں نے کسی وجہ سے اس میں اب تک کوئی دلچسپی نہیں لی۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ کوئی بھی سیاسی تنظیم جو متوسط مسلمانوں کے حالات کو بہتر بنانے کا وعدہ نہ کرے وہ کبھی ہماری عوام کو اپنی طرف نہیں کھینچ سکتی۔
نئے آئین کے تحت اعلی عہدے بالائی طبقات کے افراد کو ملیں گے، اور نسبتاؐ چھوٹے عہدے وزراء کے دوستوں اور رشتہ داروں کو ملیں گے۔ دیگر معاملات میں بھی ہمارے سیاسی اداروں نے عمومی طور پر مسلمانوں کی بہتری کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ روٹی کا مسئلہ دن بہ دن مزید سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ ایک عام مسلمان یہ محسوس کرنے لگا ہے کہ گزشتہ 200 سالوں سے اس کی حالت مزید پستی کی ہی طرف گامزن ہے۔ عمومی طور پر وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کی غریبی کا باعث ہندو بنیہ اور سرمایادارانہ نظام ہے۔ اس کے ذہن میں یہ تصور ابھی مکمل طور پر واضح نہیں ہوا کہ غیر ملکی حکومت بھی اس کے لئے یکساں طور پر ذمہ دار ہے۔ تاہم یہ تصور بھی ایک دن واضح ہونا ہی ہے۔ چنانچہ سوال یہ ہے: کہ کیا مسلمانوں کی غربت کا مسئلہ حل کرنا ممکن ہے؟ اور لیگ کا پورا مستقبل ہی اس مسئلہ کے حل کے سلسلہ میں اس کی سرگرمیوں پر منحصر ہے۔ اگر لیگ ایسا کوئی وعدہ نہ کر سکی تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام پہلے کی ہی طرح اس کے تئیں لا تعلق رہیں گے۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ اسلامی قوانین کے نفاذ نیز جدید نظریات کی روشنی میں ان میں مزید پیش رفت کے امکانات کی صورت میں اس مسئلہ کا حل موجود ہے۔
اسلامی تشریع کا بغور تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اس قانونی نظام کو بخوبی سمجھ بوجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر ایک فرد کو کم از کم بقا کا حق ضرور حاصل ہو جاتا ہے۔ لیکن اس ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ یا اس میں پیش رفت ایک آزاد اور خود مختار مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر ناممکن ہے۔ یہی برسوں سے میرا ایماندارانہ پختہ خیال رہا ہے اور میں ابھی بھی اس کو مسلمانوں کا روٹی کا مسئلہ حل کرنے کا نیز پر امن ہندوستان کو یقینی بنانے کا واحد طریقہ سمجھتا ہوں۔ اگر ایسی کوئی صورت حال ہندوستان میں ناممکن ہے تو اس کا واحد متبادل خانہ جنگی ہے جو کہ مسلم ہندو فسادات کی شکل میں کچھ عرصہ سے حقیقتاؐ جاری ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ملک کے بعض حصوں، مثال کے طور پر شمال مغربی ہندوستان میں فلسطین کی کہانی نہ دہرائی جائے۔
جواہر لال کی الحادی اشتراکیت کو مسلمانوں کی طرف سے بہت مثبت ردِ عمل ملنے کی امید نہیں ہے۔ بلکہ جواہر لال کی اشتراکیت کا ہندو سیاسی ڈھانچہ میں شامل ہونا تو خود ہندوؤں کے لئے بھی خاصی باہمی خونریزی کا باعث ہو سکتا ہے۔ اشتراکی جمہوریت اور ہندومت کا باہمی مسئلہ براہمنوں اور بدھ مت کے مسئلہ سے مختلف نہیں ہے۔ میں یقینی طور پر یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ہندوستان میں اشتراکیت کا مستقبل بھی وہی ہو گا جو بدھ مت کا ہوا تھا۔ لیکن میرے ذہن میں یہ ضرور واضح ہے کہ اگر ہندومت اشتراکی جمہوریت کو قبول کر لیتا ہے تو وہ یقینا ہندومت ہی نہیں رہ جائے گا۔ مسلمانوں کے لئے اشتراکی جمہوریت کو اسلام کے قانونی اصولوں سے مطابقت رکھتی ہوئی کسی مناسب شکل میں قبول کر لینا انقلاب نہیں بلکہ اسلام کی خالص اصل کی طرف واپسی ہو گی۔ چنانچہ جدید مسائل کو حل کرنا ہندوؤں کی بہ نسبت مسلمانوں کے لئے زیادہ آسان ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، مسلم ہندوستان کے لئے ان مسائل کے حل کو ممکن بنانے کے لئے ملک کی از سرِ نو تقسیم اور کم از کم ایک آدھ مسلم ریاست میں واضح اکثریت ہونا ضروری ہے۔ کیا آپ مجھ سے اتفاق نہیں کریں گے کہ ایسے کسی مطالبے کا وقت آ گیا ہے؟ شاید یہی بہترین جواب ہے جو آپ جواہرلال کی الحادی اشتراکیت کو دے سکتے ہیں۔ بہر حال میں نے اس امید پر آپ سے اپنے خیالات عرض کر دئے کہ آپ ان کو اپنی تقریر میں یا لیگ کے آئندہ اجلاس کے بعد ہونے والے مباحثوں میں سنجیدگی سے اہمیت دیں گے۔ مسلم ہندوستان پُرامید ہے کہ اس سنگین موڑ پر آپ کی صلاحیتیں ہمارے حالیہ دشواریوں سے نکلنے کا کوئی راستہ دریافت کر لیں گی۔
آپ کا مخلص،
سید محمد اقبال
نوٹ: اس خط کے مضمون پر میں آپ کو ذرائعِ ابلاغ کے ذریعہ ایک کھلا پیغام لکھنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ لیکن مزید غور وفکر کے نتیجہ میں مجھے موجودہ حالات اس قسم کے قدم کے لئے مناسب معلوم نہیں ہوئے۔
Ghareebah is doing her MA in English, a passionate Indian Muslimah, searching for the higher truths.